جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن حکیم سے اِستدلال

قدرت نے مختلف اَشیاء کو ایک دوسرے کے مقابل اِنفرادی طور پر شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا ہے۔ مختلف جہات و حیثیات سے بعض علاقے دوسرے علاقوں پر اور بعض دن دوسرے دنوں پرجدا جدا امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بھی بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے۔ انبیاء و رُسل میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور امتیاز بخشا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘
البقرة، 2 : 253
اﷲ رب العزت نے بعض ایام کو دیگر ایام پر، بعض مہینوں کو دوسرے مہینوں پر اور بعض ساعتوں کو بھی دوسری ساعتوں پر شرف و اِمتیاز عطا کیا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی وجہ فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 185
اسی ماہِ مبارک کی ایک رات (لیلۃ القدر) کو شبِ نزولِ قرآن ہونے کی بناء پر دیگر راتوں پر فوقیت عطا فرمائی۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہےo‘‘
القدر، 97 : 1
اِسی طرح دوسرے مقدس مقامات کے باوجود صرف شہر مکہ کی قسم کھاتے ہوئے اُسے دوسرے شہروں پر فضیلت دی، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کا بیشتر حصہ اس شہر میں گزرا۔ ارشاد فرمایا :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO
’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo‘‘
البلد، 90 : 1، 2
اِسی طرح ایمان اور اسلام کے بعد انسانی معاشرے میں عزت وتکریم اور ایک دوسرے پر فضیلت و برتری کا معیار تقویٰ کو قرار دیا۔ ارشاد فرمایا :
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.
’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 13
الغرض قرآن حکیم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات اور اشیاء کے تقدس کا اظہار اور ان کی فضیلت کی مختلف وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ جس طرح لیلۃ القدر ہزار راتوں سے افضل ہے اور رمضان المبارک دیگر مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے، اُسی طرح ماہِ ربیع الاول کے امتیاز اور شانِ علو کی وجہ صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم نے مومنین پر احسان فرمایا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے طفیل ربیع الاول سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں نمایاں فضیلت و امتیاز کا حامل بن گیا ہے۔ اسے اگر ماہِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موسوم کیا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔

1۔ جشنِ نزولِ قرآن سے اِستدلال

قرآن مجید اﷲ تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام اور اس کی صفت ہونے کے اعتبار سے شانِ یکتائی رکھتا ہے۔ اس کا نزول انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے انسانیت کو ایسا نور عطا ہوا جس سے جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور اِنسان شرف و تکریم کے اُجالوں میں اپنے اصل مقام کا نظارہ کرنے لگا۔ قرآن ہمیں برگزیدہ اور مکرّم ہستی کے ذریعے عطا ہوا۔ اللہ کی اس کتاب نور کو ایک نور لے کر آیا۔ ارشاد فرمایا :
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o‘‘
المائده، 5 : 15
جب قرآنی علم کے ذریعے انسان کو اﷲ تعالیٰ نے لامتناہی عظمتیں عطا کی ہیں تو اس ہستی کی عظمتوں کا عالم کیا ہوگا جس پر اس کتابِ زندہ کا نزول ہوا اور جس کی تجلیات و تعلیمات سے عالمِ انسانیت کو یہ عظیم ذخیرۂ علم و حکمت اور مصدرِ ہدایت عطا کیا گیا، جس کا قلبِ اطہر وحیء الٰہی کا مہبط بنا اور حسنِ صورت و سیرت قرآنِ ناطق قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوِ مقام کا ادراک کون کر سکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ کامل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائل کے ذکرِ جمیل کا ہی مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں جھانک کر انسان اپنے بگڑے ہوئے خدوخال کو سنوار سکتا ہے۔ بقول اِقبال رحمۃ اللہ علیہ :
زِ قرآن پیش خود آئینہ آویز
دگرگون گشتۂ از خویش بگریز
اِقبال، کلیات (فارسی)، اَرمغانِ حجاز : 816
(اے بندۂ خدا! قرآن کے آئینے میں اپنے کردار کو دیکھ، تیری حالت بگڑ چکی ہے۔ خود کو اپنی اس دگرگوں حالت سے نکال اور اس کردار کی طرف لوٹ جا جس کا نقشہ تجھے آئینۂ قرآن میں نظر آرہا ہے۔)
لہٰذا قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت پر ہدیۂ تشکر بجالانا قرآن پر ایمان اور اس سے محبت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے۔ لیکن نعمتِ قرآن پر شکر بجا لانا اس وقت تک ممکن ہے نہ وہ اﷲ جل مجدہ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکتا ہے جب تک اُس ذاتِ اَقدس کی ولادتِ باسعادت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا جائے جن کی وساطت سے اﷲ تعالیٰ نے اِنسانیت کو قرآن جیسی نعمت سے فیض یاب فرمایا۔ اِس لیے جب ہم نزولِ قرآن کی رات جشنِ نزولِ قرآن کے طور پر بڑے اہتمام سے مناتے اور اس میں قرآن حکیم کے فضائل و تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں؛ تو جس ہستی کی بہ دولت یہ عظیم نعمت ہمیں میسر آئی اُس کی ولادت باسعادت کی رات بہ درجۂ اولیٰ زیادہ اِہتمام کے ساتھ منائی جائے گی۔