جلوسِ میلاد

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا ضروری حصہ بن چکا ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :
کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :
فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!
’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970
3. أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116
4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :
جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329
معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ

أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ
(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131
2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82
3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373
4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507
6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129
10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634
11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101
12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی سے واضح ہوگیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔
میلاد کی تقریبات کے سلسلے میں انتظام و انصرام اور ہر وہ کام انجام دینا جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو شرعی طور پر مطلقاً جائز ہے۔ اس طرح محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز! عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔