اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ کا یومِ نزولِ عید کے طور پر منانا
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت. (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ)۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے :1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں :
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له
: يا أمير المومنين! آية في کتابکم
تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال
:
(اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ
وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان
الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے
امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ
یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا
: (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور
تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر
لیا)۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن
عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145
3. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330
4. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840
5. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
6. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
7. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012
اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ
آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں
کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں
جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145
3. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330
4. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840
5. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
6. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
7. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012
قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه.
’’ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔‘‘
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔
ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ صنے عرفہ اور یوم الجمعہ
کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ
دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے
ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر
دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا
تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں :
عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة.
’’میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت
سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں
ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر
مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا :
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ
وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا.
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور
تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر
لیا۔‘‘
المائدة، 5 : 3
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة
ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
’’میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ
دِينَكُمْ نازل ہوئی :
جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اِسی لیے اُس کی
توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے
کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید
نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ
اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور
یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
3. اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا)۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا :
لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا.
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82
4. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
6. ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید
کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان
پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82
4. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
6. ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ
کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن
عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں
ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل
صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔