wall paper 2014


میرا تو سب کچھ میرا نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے



۱۲ ربیع الاول یوم وفات یا یوم ولادت

ربیع الاول 1429ھ/2008ء کے جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ایک گروہ نے حسبِ عادت اور حسبِ معمول حضور اکرم شافع روز جزا، سید المرسلین خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و تاریخ وصال سے متعلق جھوٹ بولنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ بھی کیاکہ اُس جھوٹ کو امام اہلسنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدّدِ دین و ملت پروانۂ شمع رسالت الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے پمفلٹس اور اسٹیکرز نکالے اور شہر کی سڑکوں پر آویزاں اور بسوں وغیرہ پر چسپاں کیے اور اس جھوٹ میں ترقی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ یہ منجانب ”انجمن فیضانِ رضا“ ہے، وہ جھوٹ کیا تھا؟وہ جھوٹ قارئینِ کرام کی خدمت میں نقل کرتا ہوں: یا اللہ عزوجل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمولادتِ (پیدائش) نبی صلی اللہ علیہ وسلم 8 ربیع الاول ہےاور وفاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہےتحقیقِ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی(نطق الہلال، صفحہ 12۔13، فتاویٰ رضویہ، جلد: 26، صفحہ: 412۔415) [انجمنِ فیضانِ رضا]اس گروہ نے عوامِ اہلسنت کو یہ دھوکا دینا چاہا کہ ”دیکھو تمہارے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی تو یہ تحقیق ہے کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک آٹھ ربیع الاول ہے، تو تم 12تاریخ کو جشنِ ولادت کیوں مناتے ہو جبکہ تمہارے امام کے نزدیک تو 12 ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہے، یہ تو غم کا دن ہے اور تم جشن منار ہے ہو، تم نبی سے محبت کا نہیں عداوت کا ثبوت دے رہے ہو۔“ وغیرہ وغیرہ اور حوالہ دے دیا نطق الہلال اور فتاوٰی رضویہ کا اور یہ ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی یہ تحقیق نطق الہلال صفحہ 12،13 میں بھی ہے اور فتاویٰ رضویہ کی جلد 26 میں بھی ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے ہیں۔ اب ہم قارئینِ کرام پر حقیقت واضح کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ سے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و وصالِ مبارک سے متعلق چند تحریری سوالات کیے گئے۔ اُن کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا نام ”نطق الہلال بار خ ولاد الحبیب والوصال“ (یعنی حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وصال پر شہادتِ ہلال) رکھا۔ یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ شریف (جلد:26، صفحات: 405 تا 428) میں بھی شامل کیا گیا ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے نہیں بلکہ ایک ہی حوالہ ہے (یعنی نطق الہلال کا)۔حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک (پیدائش) کا دن پیر اور مہینہ ربیع الاول ثابت کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں تاریخ ولادت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:اس میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو (2)،آٹھ (8)،دس (10)،بارہ (12)، سترہ(17)، اٹھارہ (18)، بائیس(22)، سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولدِ اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اور مدارج النبوّت میں ہے) اور خاص اس مکانِ جنت نشان میں اِسی تاریخ کو مجلس میلادِ مقدس ہوتی ہے۔ علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی فرماتے ہیں: اَلْمَشھُوْرُ اَنَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ثَانِیَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ وَھُوَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقِ اِمَامِ الْمَغَازِیْ وَغَیْرِہ (شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ المقصد الاول ذکر تزوج عبد اللہ آمنۃ دار المعرفۃ بیروت1/132) (ترجمہ : مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے امام المغازی محمد بن اسحاق کا یہی قول ہے)۔ شرح مواھب میں امام ابن کثیر سے ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ (ترجمہ: جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے)۔ اِسی میں ہے،ھُوَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْعَمَلُ (ترجمہ: یہی وہ ہے جس پر عمل ہے)۔ شرح الہمزیہ میں ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ وَعَلَیْہِ العَمَلُ (ترجمہ: یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد: 26، صفحات: 411 تا 412) قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے سات قول بیان فرمائے لیکن اِن میں سے اشہر یعنی زیادہ مشہور اکثر و ماخوذ یعنی اکثریت کا اختیار کردہ اور معتبر قول جس کو لکھا ہے وہ بارہ ربیع الاول ہے اور صفحہ 414 تک اِسی قول کو دلائل سے ثابت کیا ہے اِسی دوران صفحہ 412 پر ایک قول آٹھ تاریخ کا بھی آگیا اور زیجات حساب سے بھی اعلیٰ حضرت نے آٹھ ربیع الاول کیا۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اِسی قول کو اپنایا نہیں بلکہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت نے جمہور کے قول یعنی بارہ ربیع الاول پر عمل کو ہی بہتر و مناسب لکھا ہے۔آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا، دروغ گوئی اور بددیانتی کی ایک بڑی مثال ہے۔ فتاویٰ رضویہ کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کے دور میں (وہابیوں کی حکومت سے (یعنی 1926ء سے) پہلے خاص اُس مکان جہاں مکۂ معظمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی باقاعدہ طور پر بارہ ربیع الاول کو میلاد شریف کی مجلس ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنی کتاب ”فیوض الحرمین“ میں حرمین شریفین (مکہ و معظمہ و مدینہ منورہ) کی مجالس و محافلِ میلاد شریف کا ذکر فرمایا جن میں انہوں نے خود شرکت کی اور اُن محافل میں جن انوار و برکات کا انہوں نے مشاہدہ کیا وہ بھی اس کتاب میں بیان فرمائے۔ نوٹ: شاہ ولی اللہ محدث بریلوی وہ بزرگ ہیں جنہیں دیوبندی اور اہل حدیث بھی اپنا پیشوا جانتے ہیں۔ فتاوٰی رضویہ جلد 26 کے ہی صفحہ 428 پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اور روزِ ولادت شریف اگر آٹھ بفرض غلط نو یا کوئی اور تاریخ ہو جب بھی بارہ کو عید میلاد کرنے سے کون سی ممانعت ہے۔“ یہاں اعلیٰ حضرت ”آٹھ“ کے ساتھ ”اگر“ کا استعمال کر رہے ہیں اِس سے بھی معلوم ہوا کہ ولادت شریف کی آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا بالکل غلط، جھوٹ اور بد دیانتی ہے۔البتہ علمِ ہیات و زیجات کے حساب سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے یہ تحقیق فرمائی ہے وہ کہ ولادت شریف 8ربیع الاول کو ہوئی لیکن اِسے اختیار نہیں فرمایا۔ آپ کا مختار (اختیار کردہ) قول 12 ربیع الاول ہی کا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا تحریر سے واضح طور پر ثابت ہے۔ تاریخ وفات شریفاعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں: ”قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 415)اس گروہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:”اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417)۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا ”اور تحقیق یہ ہے۔“ وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی۔ اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں: ”تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418)۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں)۔ آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418)یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی۔(اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419)خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، ”وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 426)یعنی مدینۂ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428) اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں
 ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 428

Hammad Shah

نمازِ پنجگانہ اَنبیاء علیہم السلام کی یادگار ہے

جمہور اہلِ اِسلام بارہ ربیع الاول کا دن ’’جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے طور پر مناتے ہیں اور پنے آقا و مولا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ کسی واقعہ کی یاد منانا شعائر اسلام سے ثابت شدہ اَمر ہے۔ دین کی بنیاد اور ستون قرار دی جانے والی پانچ نمازیں۔ جنہیں اِسلام اور کفر کے مابین اِمتیاز کا درجہ حاصل ہے اور جو تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں۔ دراَصل اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اَنبیاء کے اُن سجدہ ہائے شکر کی یاد منانے سے عبارت ہیں جو انہوں نے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں مختلف مواقع پر بہ صورتِ نوافل ادا کیے۔ اپنے محبوب بندوں کی یہ ادا اﷲتعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے یہ نوافل اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بطور فرض نماز عطا کر دیئے۔
امام طحاوی (229. 321ھ) پانچ فرض نمازوں کی نسبت امام محمد بن عائشہ کا قول نقل کرتے ہوئے شرح معانی الآثار میں درج ذیل تفصیل بیان کرتے ہیں :

1۔ نمازِ فجر سیدنا آدم علیہ السلام کی یادگار ہے

إن آدم عليه السلام لما تِيبَ عليه عند الفجر، صلي رکعتين، فصارت الصبح.
’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔‘‘

2۔ نمازِ ظہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے

وفدي إسحاق عند الظهر فصلي إبراهيم عليه السلام أربعا، فصارت الظهر.
’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔‘‘

3۔ نمازِ عصر سیدنا عُزیر علیہ السلام کی یادگار ہے

و بُعِثَ عزير، فقيل له : کم لبثت؟ فقال : يوما أو بعض يوم. فصلي أربع رکعات، فصارت العصر.
’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔‘‘

4۔ نمازِ مغرب سیدنا داؤد علیہ السلام کی یادگار ہے

وقد قيل : غُفِر لعزير عليه السلام وغُفِر لداود عليه السلام عند المغرب، فقام فصلي أربع رکعات فجهد فجلس في الثالثة، فصارت المغرب ثلاثا.
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔‘‘

5۔ نمازِ عشاء تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار ہے

وأوّل من صلي العشاء الآخرة، نبينا محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطي أي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014
الغرض یہ پنجگانہ نمازیں ان جلیل القدر پیغمبروں کی عبادت کی یاد دلاتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم اور فضل و احسان فرمایا اور انہوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر دوگانہ اور چہارگانہ نوافل ادا کیے جو اللہ رب العزت نے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پانچ فرض نمازوں کی صورت میں ان کی یادگار بنا دیئے۔ اس طرح دن بھر کی ان تمام نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انبیاء کرام کی یاد کا تسلسل بنا دیا۔
علامہ ابن عابدین شامی (1244۔ 1306ھ) اپنے فتاویٰ
’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ میں پانچ فرض نمازوں کی نسبت فرماتے ہیں :
قيل : الصبح صلاة آدم، والظهر لداود، والعصر لسليمان، والمغرب ليعقوب، والعشاء ليونس عليهم السلام، وجمعت في هذه الأمة.
’’کہا گیا ہے کہ نمازِ فجر حضرت آدم، ظہر حضرت داؤد، عصر حضرت سلیمان، مغرب حضرت یعقوب، اور عشاء حضرت یونس علیہم السلام کے لیے تھیں جنہیں اِس اُمت میں جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘
ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 1 : 351
وہ لمحے جو انبیاء کرام نے اﷲ کی بارگاہ میں شکر، عجز اور خشوع و خضوع میں گزارے اﷲ نے انہیں اَمر کر دیا۔ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اپنے قرب کا راستہ دکھا دیا اور محبت و اطاعت کی نورانی کیفیات کی رحمت بے پایاں عطا کر دی۔ اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے وہ سجدے جو مقبول ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اُمت مسلمہ کو مل گئے جو تاابد اُن کی یاد مناتی رہے گی۔ یاد کی اَہمیت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اَرکانِ اِسلام میں سے اہم ترین رُکن صلوٰۃ کی عملی صورت میں جو پانچ نمازیں مقرر ہوئیں وہ ساری کی ساری کسی نہ کسی نبی کی یاد ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ایزدی سے منسوب کسی عمل یا واقعہ کی یاد منانا اسلام میں نہ صرف جائز ہے بلکہ دین اِسلام کی بنیادی فکر و فلسفہ کا تقاضہ ہے۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی خیر الوریٰ، حبیبِ کبریاء، تاجدارِ اَنبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو سراسر جائز اور منشاء خداوندی کے عین مطابق ہے۔

posted by Hammad Shah

قرآن حکیم کے نظامِ ہدایت میں ’’یاد‘‘ منانے کی اَہمیت

posted by Hammad Shah
قرآن حکیم نے انسان کو جو نظامِ ہدایت عطا کیا ہے اُس کے قیام و استحکام کی بنیاد بھی اسی یاد پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ وہ انسان جو اﷲ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آتا ہے وہ ہدایتِ الٰہی کے ماضی اور مستقبل پر بھی ایمان لاتا ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَO
’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیںo‘‘
البقرة، 2 : 4
یہاں ’’آپ سے پہلے نازل کی گئی‘‘ کتابوں پر ایمان ’’یاد‘‘ کی بنیاد پر ایمان کا جزو لاینفک بن گیا ہے جب کہ مومن کا باقی زندگی میں اُسی ہدایت کو ’’یاد رکھتے ہوئے‘‘ اور ہر قدم اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے گزارنا تکمیلِ ایمان کے لیے لازم ہے۔
اِنسان اِنتخابِ عمل کے دوراہے پر کھڑا ہے، جب وہ کسی عمل کا اِرادہ کرتا ہے تو جو کچھ اسے یاد ہوگا اسی کے مطابق اس سے عمل سرزد ہوگا۔ یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی سمجھنے والا ہے کہ دل کی کیفیات یا قلبی اَعمال جنہیں ہم محبت، خشیت، عجز و نیاز اور تسلیم و رضا کے الفاظ استعمال کر کے ان کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’یاد‘‘ یا ’’یادوں‘‘ سے منسلک ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ جذبات ہیں مگر خیالات کے تحرک کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔ اس کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کو یاد کی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ جب کفار و مشرکین کو دعوتِ ایمان دی جاتی تو ہمیشہ جواب میں یہی کہتے کہ ہم اُس مسلک پر چلنا چاہتے ہیں جو ہمارے آباء و اَجداد اور اَسلاف سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے۔ یعنی وہ ماضی کی ’’یاد‘‘ سے اِنقطاع پر تیار نہ ہوتے تھے۔ اس پر انہیں یاد دلایا جاتا کہ تمہارے باپ دادا کا راستہ منزل تک نہیں جاتا، وہ بھی غلط راستے پر چل رہے تھے اور وہ اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے۔ ان کے پاس بھی پیغامِ ہدایت آیا لیکن انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول کی تکذیب کی اور برباد ہوگئے۔ قرآن حکیم میں ہے :
فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُواْ مُؤْمِنِينَO
’’پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھےo‘‘
الأعراف، 7 : 72
یہاں کفار و مشرکین کو ’’یاد دلایا‘‘ جا رہا ہے کہ تمہارے اَسلاف نے غلط راستہ اختیار کیا اور برباد ہوگئے۔ لہٰذا وہ راستہ اپناؤ جس کی طرف تمہارے اسلاف کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ مسلمانوں پر بھی لازم قرار دیا گیا کہ سابقہ انبیاء و رسل جو پیغامِ الٰہی لے کر تشریف لائے وہ یہی پیغام ہے جو قرآن میں ہے۔ لہٰذا پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا قرآن حکیم پر ایمان لانا ضروری ہے۔

ملتِ اِبراہیمی

’’سابقہ انبیاء کرام کی یاد منانا‘‘ اور ان کی نبوت و رسالت کا اِقرار کرنا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اسلام کو قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ’’ملتِ ابراہیمی‘‘ کہا گیا ہے :
1. وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَO
’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اُس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا، اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گےo‘‘
البقرة، 2 : 130
2. وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں : یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo‘‘
البقرة، 2 : 135
3. قُلْ صَدَقَ اللّهُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہو گئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھےo‘‘
آل عمران، 3 : 95
4. وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاًO
’’اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لیے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہوگیا)o‘‘
النساء، 4 : 125
5. قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’فرما دیجئے : بے شک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اﷲ کی طرف یک سُو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo‘‘
الأنعام، 6 : 161
6. ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’پھر (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جد اتھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo‘‘
النحل، 16 : 123
7. وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُO
’’اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لیے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہےo‘‘
الحج، 22 : 78
ان جملہ آیات میں ملتِ اِبراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانہ میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمانے سے پہلے اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِـي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ.
’’اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے۔‘‘
يوسف، 12 : 38
اِن آیات میں سابقہ اَنبیاء کی یاد کو دین کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، یعنی اَنبیائے سابقہ اور ان کی اُمتوں کے حالات کو یاد رکھتے ہوئے اَنبیاء کی سنت کی پیروی کرنا بھی سنتِ انبیاء ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ.
’’(اے حبیب!) بے شک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔‘‘
النساء، 4 : 163
سابقہ اُمتوں اور حضور ختمی مرتبت سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام کے احوال اور دین ابراہیم کے حوالے سے حاصل ہونے والا علم اہلِ ایمان کے قلوب و اَذہان میں یاد کی صورت میں منور ہو کر قدم قدم پر ہمارے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتا ہے۔
یاد کا مضمون انتہائی وسیع ہے اور اس کا احاطہ کرنے کے لیے الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کی اس بنیادی خوبی کو موثر طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کا ذکر آیا ہے۔ یہاں موضوع سے متعلقہ نکات ذہن نشین کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم ’’یاد‘‘ کے لیے قرآن حکیم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کریں۔ اس حوالہ سے ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن حکیم میں کم و بیش 267 مرتبہ اِستعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے : یاد کرلینا، یاد دلانا، محفوظ کرلینا۔ عبرت اور نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جب کہ قرآن مجید کو بھی ’’ذکر‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بعض مقامات پر ذکر کے مقابلے میں ’’نسیان‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے : بھول جانا، بھلا دینا، یا غیر اہم سمجھ کر ترک کر دینا، چھوڑ دینا۔
1. فراهيدي، کتاب العين، 7 : 304، 305
2. ابن منظور، لسان العرب، 15 : 322، 323
3. فيروزآبادي، القاموس المحيط، 4 : 398
اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے جو تعلیم نازل فرمائی وہ اصولی طور پر اول تا آخر ایک ہی تھی، لیکن انسانی تحریف و تبدل کی وجہ سے وہ اپنی اصل شکل میں نہ رہی۔ قرآن اس فراموش کردہ تعلیمِ ربانی کی یاد دہانی کراتا ہے تاکہ انسان کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجائے۔ قرآن مجید کے اندر جو احکامات بیان ہوئے ہیں انہیں بھی وہ مختلف پہلوؤں سے سامنے لاکر ایک مقام کی دوسرے مقام پر یاددہانی کراتا ہے۔ اس طرح بار بار یاددہانی سے انسان کے دل میں ان قوانین کی اہمیت اور عظمت کا احساس پیدا کرتا ہے تاکہ انسان ان کی پابندی کی طرف توجہ دے۔
اب ہم اگلے صفحات میں اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری عبادات کس طرح اَنبیاء علیہم السلام کی یادوں سے منسلک اور وابستہ ہیں اور کیسے کیفیاتِ مسرت و غم انبیاء کرام کی حیاتِ مقدسہ سے ہمارے لیے نورِ عجزوخشیت اور محبت و تعظیم کشید کرتی ہیں

new wall paper For milad

posted by Hammad Shah




جلوسِ میلاد

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا ضروری حصہ بن چکا ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :
کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :
فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!
’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970
3. أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116
4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :
جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329
معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ

أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ
(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131
2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82
3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373
4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507
6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129
10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634
11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101
12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی سے واضح ہوگیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔
میلاد کی تقریبات کے سلسلے میں انتظام و انصرام اور ہر وہ کام انجام دینا جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو شرعی طور پر مطلقاً جائز ہے۔ اس طرح محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز! عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔

اِطعام الطعام (کھانا کھلانا)

محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر خاص و عام کے لیے ماکولات و مشروبات کا اِنتظام کیا جاتا ہے، اَنواع و اَقسام کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں، مٹھائی اور شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ کھانا کھلانا شرعاً مقبول عمل ہے جسے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اور قرآن و حدیث میں اِس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔

1۔ قرآن حکیم میں کھانا کھلانے کی فضیلت

1۔ کھانا کھلانے کے باب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاO
’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اُس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیںo‘‘
الدهر، 76 : 8، 9
2۔ مناسکِ حج میں سے ایک قربانی کے جانور ذبح کرنا ہے۔ اللہ رب العزت نے ذبیحہ کے گوشت کو خود کھانے اور باقی ضرورت مندوں کو کھلانے کاحکم دیا ہے :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَO
’’پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤo‘‘
الحج، 22 : 28
ایک اور مقام پر فرمایا :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ.
’’تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو بھی کھلاؤ۔‘‘
الحج، 22 : 36
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کھانے کی دعوت پر بلایا کرتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ.
’’اے ایمان والو! نبیء (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اُس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔‘‘
الأحزاب، 33 : 53
اِن آیاتِ مبارکہ سے واضح ہے کہ کھانے کی دعوت دینا اور اپنے دوست اَحباب، ضرورت مندوں، محتاجوں اور بے کسوں کو کھانا کھلانا عین سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حکم خداوندی ہے۔

2۔ اَحادیثِ مبارکہ میں کھانا کھلانے کی ترغیب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مواقع پر غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے چند اَحادیث مبارکہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا : بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تطعم الطعام وتقرأ السّلام علي من عرفت ومن لم تعرف.
’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اُس شخص کوجسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، 1 : 13، رقم : 12
2. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إفشاء السّلام، 1 : 19، رقم : 28
3. بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب السّلام للمعرفة وغيراالمعرفة، 5 : 2302، رقم : 5882
4. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل الإيمان، 1 : 65، رقم : 39
5. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء السّلام، 4 : 350، رقم : 5194
6. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب أي الإسلام خير، 8 : 107، رقم : 5000
7. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2 : 1083، رقم : 3253
2۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اَوّل کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا :
ياأيها الناس! أفشوا السّلام، وأطعموا الطّعام، وصلّوا والنّاس نيام تدخلون الجنّة بسلام.
’’اے لوگو! سلام عام کرو اور کھانا کھلاؤ، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، 4 : 652، رقم : 2485
2. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في قيام الليل، 1 : 423، رقم : 1334
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2 : 1083، رقم : 3251
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 451، رقم : 23835
5. دارمي، السنن، 1 : 405، رقم : 1460
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أعبدوا الرحمن، وأطعموا الطّعام، وأفشوا السّلام، تدخلوا الجنّة بسلام.
’’تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأطعمة، باب ما جاء في فضل إطعام الطعام، 4 : 2870، رقم : 1855
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 170، رقم : 6587
3. دارمي، السنن، 2 : 148، رقم : 2081
4. بزار، البحر الزخار (المسند)، 6 : 383، رقم : 2402
5. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 340، رقم : 981
4۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے کثرت کے ساتھ کھانا کھلانے کا شکوہ کیا اور اسے اِسراف قرار دیا، تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا حوالہ دیا :
خيارکم من أطعم الطّعام، وردّ السّلام.
’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 16، رقم : 23971، 23974
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 166، 167، رقم : 7105
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 310، رقم : 7739
4. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 478، رقم : 8973
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من أطعم أخاه خبزاً حتي يشبعه، وسقاه ماء حتي يرويه، بعّده اﷲ عن النار سبع خنادق بُعد ما بين خندقين مسيرة خمسمائة سنة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پَر کر دے گا، اور دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 144، رقم : 7172
2. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 320، رقم : 6518
3. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 218، رقم : 3368
4. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 576، رقم : 5807
5. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2 : 36، رقم : 1403
6. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 130
اِن تمام اَحادیث سے یہ نتیجہ اَخذ ہوا کہ اپنے بیگانے کی تمیز کے بغیر کسی کو بھی کھانا کھلانا بہترین عمل ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کھانا کھلانے سے دوزخ سے رہائی ملتی ہے اور جنت میں ٹھکانہ ملتا ہے۔ لہٰذا اگر عام دنوں میں کسی بھوکے اور محتاج کو کھانا کھلانے کا اتنا زیادہ ثواب ہے تو جس دن بے کسوں کے والی، بے آسروں کے آسرا اور بے سہاروں کے سہارا سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس عالم آب و گل میں تشریف آوری ہوئی اُس موقع پر لوگوں کو کھانا کھلانا کتنے اَجر کا باعث ہوگا۔

اِہتمامِ چراغاں

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات میں اِجتماعاتِ ذکر اور محافلِ نعت کا اِنعقاد اَدب و اِحترام اور جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ شبِ ولادت چراغاں کا اِہتمام جشنِ میلاد کا ایک اور ایمان اَفروز پہلو ہے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کو رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر علم و آگہی کے اُجالوں میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نورِ اِلٰہی کا مظہر اَتم ہے۔ لہٰذا دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشیاں منانے کے لیے بساطِ زندگی کو رنگ و نور سے سجایاجاتا ہے۔ ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اَوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دِقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود ربِ ذوالجلال کی سنت ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ رضی اﷲ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شبِ ولادت کی بابت فرماتی ہیں :
فما ولدته خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.
’’پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسمِ اَطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
2. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094
3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
5. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
6. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583
2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے :
إني رأيت حين ولدته أنه خرج مني نور أضاء ت منه قصور بصري من أرض الشام.
’’جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمینِ شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545
2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404
3. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318
4. دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13
5. شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369
6. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446
7. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230
8۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔
9. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093
10. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
11. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103
12. ابن هشام، السيرة النبوية : 160
13. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455
14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172
15. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466
16. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
17. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275
18. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78
19. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83
20. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46

اُتر آئے ستارے قمقے بن کر

اِنسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے اُس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اِس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
حضرت ولادة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت البيت حين وضع قد امتلأ نوراً، ورأيت النجوم تدنو حتي ظننت أنها ستقع عليّ.
’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘
1. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 278، 279
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
4. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
5. بيهقي، دلائل النبوة، 1 : 111
6. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 2 : 247
7. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
8. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 40
9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 94
10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں چراغاں

مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں :
اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
ابن ظهيرة، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202
علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356
اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔

آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف

آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف

مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اﷲ تعالیٰ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (1) آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند اﷲ اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (2)
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
اِس بابت قرآن حکیم فرماتا ہے :
1. مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
’’جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اُس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم اُن کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ اِسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور اُنہیں اِس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتیo یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اَکارت ہوگئے جو اُنہوں نے دنیا میں اَنجام دیے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیوں کہ ان کا حساب پورے اَجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے، اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)o‘‘
هود، 11 : 15، 16
2. وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِO
’’اور کافروں کے اَعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس آتا ہے تو اُسے کچھ (بھی) نہیں پاتا، (اِسی طرح اُس نے آخرت میں) اللہ کو اپنے پاس پایا مگر اللہ نے اُس کا پورا حساب (دنیا میں ہی) چکا دیا تھا، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہےo‘‘
النور، 24 : 39
3. وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًاO
’’اور (پھر) ہم اُن اَعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) اُنہوں نے (زندگی میں) کیے تھے تو ہم اُنہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گےo‘‘
الفرقان، 25 : 23
(2) اِس ضمن میں قرآن حکیم فرماتا ہے :
1. يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَO الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌO
’’وہ اللہ کی (تجليّاتِ قُرب کی) نعمت اور (لذّاتِ وصال کے) فضل سے مسرور رہتے ہیں اور اِس پر (بھی) کہ اللہ اِیمان والوں کا اَجر ضائع نہیں فرماتاo جن لوگوں نے زخم کھا چکنے کے بعد بھی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر لبیک کہا، اُن میں جو صاحبانِ اِحسان ہیں اور پرہیزگار ہیں، اُن کے لئے بڑا اَجر ہےo‘‘
آل عمران، 3 : 171، 172
2. وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَO وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO
’’اور ہم نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں کرتےo اور یقیناً آخرت کا اَجر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقویٰ پر گامزن رہےo‘‘
يوسف، 12 : 56، 57
3. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاًO
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً ہم اُس شخص کا اَجر ضائع نہیں کرتے تو نیک عمل کرتا ہےo‘‘
الکهف، 18 : 30
4. وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَO
’’اور نیک اَنجام پرہیزگاروں کے لیے ہےo‘‘
1. الأعراف، 7 : 128
2. القصص، 28 : 83
اب ہم اِمام بخاری کی بیان کردہ اُس روایت کی طرف آتے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی اﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَO سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍO
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نےo عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گاo‘‘
اللهب، 111 : 1 - 3
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813
2. عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955
3. عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350
4. مروزي، السنة : 82، رقم : 290
5. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701
6. بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108
9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
10. بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282
11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62
12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168
14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172
15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230
16. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
18. شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41
20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 : 278
یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
(1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔
1. ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
3. ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37
4. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272

(2) ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39

(3) 1. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
3. عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص : 37)‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت دی۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238
2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں :
قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238
3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
عبد الحق، مدارج النبوة، 2 : 19
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں :
’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2 : 282
5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں :
’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348
اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔

کافر کے عذاب میں تخفیف کیوں؟

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ اﷲ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔
وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں :
1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے :
وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں :
هذا خاص به إکرامًا له صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
بغوي، شرح السنة، 9 : 76
3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے :
قال : مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال : مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال : ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له : أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد اﷲ؟ فقل لها : اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
’’ابو لہب نے کہا : میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا : میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا : میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا : کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی اﷲ عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد اﷲ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا : جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں :
هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں :
يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذالک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو۔‘‘
کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19 : 79
6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں :
يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذلک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں :
فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی اﷲ تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔

ایک اِعتراض اور اُس کا جواب

بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
1۔ جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔
2۔ اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔
3۔ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔

ایک عبرت آموز حقیقت

مذکورہ بالا واقعہ سے ایک طرف تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کیا جانے والا معمولی سا عمل بھی بارگاہِ ایزدی میں باعثِ اَجر ہے خواہ وہ کسی کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف مومنین کے لیے وعید ہے کہ مومن زندگی بھر کروڑوں نیک عمل کرتا رہے لیکن اگر اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی ایک معمولی سی بے ادبی سرزد ہو جائے تو مومن ہوتے ہوئے بھی اُس کے سارے اَعمال غارت کردیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ.
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کونبیء مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ بات کرتے ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اِحتیاط سے اپنی آوازوں کو پست رکھا کریں اور آپس میں بات کرتے ہوئے اپنی آواز اتنی بلند نہ کیا کریں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم شعار لبوں سے نکلی ہوئی شیریں آواز سے اونچی ہو جائے۔ بارگاہِ نبوت کا یہ ادب خود اﷲ رب العزت سکھا رہا ہے۔ بصورتِ دیگر واضح الفاظ میں حکم فرما رہا ہے کہ میرے باز رکھنے کے باوجود اگر نہیں سمجھو گے اور بے احتیاطی سے کام لو گے تو سن لو :
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
’’(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں توحید کے اِنکار کا ذکر ہے نہ سنت کے انکار کا، نبوت و رسالت کے انکار کا ذکر ہے نہ آخرت کے اِنکار کا، نماز روزے سے اِنحراف کا ذکر ہے نہ حج و زکوٰۃ کے اِنکار کا ذکر ہے۔ صرف آواز ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند ہوگئی تو نتیجتاً پوری زندگی کے نیک اَعمال برباد ہو جانے کی کڑی وعید سنائی جا رہی ہے۔
اِس بحث کی روشنی میں یہ تصور ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ایک طرف کروڑوں عمل ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں معمولی سی بے ادبی ہو جائے تو آخرت میں ان تمام اَعمال کی جزا سے محروم کر دیا جائے گا، اور دوسری طرف اگر کافر و دشمنِ اِسلام اور توحید و رسالت کا منکر شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور تعظیم میں ایک عمل بھی کر دے تو اسے اس عمل کی جزا عالمِ برزخ اور آخرت دونوں میں دی جائے گی۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اَصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اَحمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 135
تمام اِنسانی اَعمال کی عظمت و قبولیت اُسی عمل کے سبب سے ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کیا جائے اور اگر دل محبتِ رسول سے خالی ہے تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ خداوندی میں باعثِ اَجر و ثواب نہیں ہوگا۔ اِسی لیے اہلِ دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ای کریمی کہ اَز خزانہ غیب
گبر و ترسا وظیفہ خور داری

دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
سعدی، کلیات (گلستان) : 66
(اے جود و سخا کے پیکرِ اَتم! آپ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے کہ اِس خرمنِ جود و سخا سے کوئی بت پرست و آتش پرست بھی محروم نہیں۔ آپ اپنے عاشقوں کو کیسے اپنے کرم سے محروم رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ کی نظرِ شفقت تو دشمنوں پر بھی ہے۔)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے منایا


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
1۔ بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833
3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962
4. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661
6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523
2۔ ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832
2. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994
3. روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51
3. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100
5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81
اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم : 1522
2. أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837
3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
القرآن، النساء، 4 : 22