جشنِ آزادی منانے سے اِستدلال

اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے ان پر شکر بجا لانا صرف اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی پر واجب نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی یہی حکم تھا۔ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ اِنعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اُس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دیo‘‘
البقرة، 2 : 47
اسی طرح دیگر آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے اِحسانات گنوائے ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا :
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 49
قرآن حکیم کی محولہ بالا آیاتِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ قومی آزادی بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ قومی آزادی بلا شبہ ایک نعمتِ خداوندی ہے اور اس کے حصول پر شکر بجا لانا حکمِ ایزدی کی تعمیل ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا برطانوی اِستعمار کے تسلط سے آزاد ہونا اور ایک نئی اسلامی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آنا اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ جب ہم ہر سال 14 اگست کو نعمتِ آزادی کے حصول پر خوشی مناتے ہیں تو یہ قرآن حکیم کے حکمِ تشکر کے حوالے سے بھی ہم پر لازم آتا ہے۔
اِسی طرح نصِ قرآنی سے یہ اَمر بھی واضح ہوگیا کہ قومی آزادی کے موقع پر ہر سال اس کی یاد منانا اور مختلف طریقوں سے شکر بجا لانا محض دنیوی اور سیاسی نہیں بلکہ دینی اور شرعی فعل ہے اور اِسے نہ ماننا حکمِ الٰہی سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہر زمانے، ہر صدی اور ہر دور کا ایک عالمی کلچر ہوتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنے اپنے تاریخی حوالوں سے ایامِ تشکر یا ایامِ مسرت مناتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں کے رہنے والے لوگ مذہبی تہوار یا کوئی نہ کوئی قومی تہوار نہ مناتے ہوں۔ یہودی، عیسائی، بدھ، ہندو حتیٰ کہ ملحد قومیں بھی اپنے اپنے ثقافتی پس منظر اور روایات سے ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے خوشی کے دن مناتی ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے ایام اللہ عنایت فرمائے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہماری زندگی کے لیے ہدایت و شریعت اور تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔ آج کے عالمی کلچر کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشنِ میلاد اِسلامی ثقافت کے اِبلاغ کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔

تہذیبی تسلسل کا اَہم تقاضا

مذکورہ بالا آیات میں جہاں تک تذکیرِ نعمت کا حکم ہے تو یہ واضح ہے کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے۔ لیکن شکر بجا لانے کا تقاضایہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہر وقت یاد رہے اور اسے کسی لمحے بھی دل و دماغ سے محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ ہر گھڑی بندے کا دل اﷲ کے شکر کی کیفیت سے معمور رہے۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سال بھر یاد رکھنے کے باوجود جب گردشِ ایام کے نتیجے میں وہی دن اور وہی وقت پلٹ کر آتا ہے تو وہ خوشی خود بخود غیر شعوری طور پر کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کا طبعی و فطری تقاضا اور ثقافتی لازمہ ہے کہ عین اُس وقت بطورِ خاص اُس نعمت کو یاد کیا جائے اور خوشی و مسرت میں اس کا ذکر کثرت و تواتر کے ساتھ کیا جائے۔ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی اور اِہتمام سے خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اس لیے لازم ہے کہ آئندہ نسلوں کو وہ نعمت یاد رہے اور اس دن کی اہمیت ان پر واضح ہو سکے۔ تاریخ کے اوراق میں ایک زندہ و پائندہ قوم کی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنا تہذیب و ثقافت کے تسلسل ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِحسانات پر شکر ادا نہیں کر سکتے اور اپنی تاریخ کے اہم واقعات کو اچھی روایات کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل نہیں کر سکتے تو بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں اﷲ کے ان احسانات سے بے خبر ہو جائیں اور ان کی نظروں سے اس دن حاصل ہونے والی نعمت کی قدر و منزلت بھی محو ہو جائے۔ لہٰذا حکمِ اِلٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ سال بھر تواﷲ تعالیٰ کا عام شکر بجا لایا جاتا رہے لیکن جب وہ دن آئے۔ جس دن اﷲ تعالیٰ نے آزادی کی نعمت اَرزانی فرمائی۔ تو خصوصی طور پر خوشیوں کا اِظہار کیا جائے تاکہ وہ دن جشن کی حیثیت اختیار کر جائے اور آئندہ نسلوں پر اس دن کی حقیقت کھل کر واضح ہو جائے۔ پس اگر آزادی کی نعمت پر شکر منانا قرآن سے ثابت ہے تو اُس ذاتِ اَقدس کی آمد کی خوشی منانا کیوں جائز و مستحسن نہ ہوگا جو وجہ تخلیقِ کائنات ہیں اور جن کے توسل اور تصدّق سے تمام نعمتیں عطا کی گئیں۔