رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
المائدة، 5 :
114
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے
اُترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے
لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
لہٰذا جب سابقہ اُمتیں معمولی سی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں تو اُمت مسلمہ پر بہ
درجۂ اَتم لازم آتا ہے کہ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منا
کر اس عظیم ترین نعمت کا شکر شرحِ صدر کے ساتھ بجا لائے، کیوں کہ ایسا کرنے کا حکم
اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے)
دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی پس تم اس کی نعمت کے باعث آپس
میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
آل عمران، 3 :
103
بلاشبہ یہ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ذریعے بندوں کے
ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان کو ایک دوسرے کا
غم خوار بنا دیا۔ ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروّتوں سے بدل دیا۔
حقیقتاً یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے تصدق سے عالمِ انسانیت کو نصیب ہوئی، اس نعمت کا
مبداء و مرجع بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اَقدس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں
کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر حلقہ بگوش ہونا اور خون کے پیاسوں کا باہم شیر و شکر ہونا اس
اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر بارگاہِ خداوندی
میں سراپا تشکر بن جائیں۔