میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے کا حکمِ خداوندی


اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے! یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
يونس، 10 : 58
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا رُوئے خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ اور ان کے ذریعے پوری اُمت کو بتا دیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہو سکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اور جس دن حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت اُنہیں عطا کی گئی اسے شایانِ شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصولِ نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چوں کہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی مناؤ، اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہٰذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یومِ ولادتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے طور پر منائیں۔ اس ضمن میں چند قابلِ ذکر نکات درج ذیل ہیں :

(1) لفظ قُلْ میں مضمر قرآنی فلسفہ

قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے کہیں براہ راست لوگوں کو مخاطب کیا جیسے ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ‘‘ اور ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ‘‘ وغیرہ، اور کہیں بعض حقائق اور اَحکامات صادر کرتے ہوئے لفظ ’’قُلْ‘‘ استعمال کیا، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے واسطہ جلیلہ سے اعلان کرانا مقصود تھا۔ قُلْ اَمر کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے : ’’کہہ دے۔‘‘ اُصول یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کلمہ ’’قُلْ‘‘ سے کسی اَمر کی نشاندہی کی گئی ہے وہ دین کے بنیادی اور اَہم ترین حقائق سے متعلق ہے، مثلاً جب اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا اِعلان اور توحید کا صحیح تصور واضح فرمانا چاہا تو فرمایا :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
’’(اے نبیء مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo‘‘
الاخلاص، 112 : 1
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ نے جب مقصودِ بندگی یعنی محبتِ الٰہی کے حصول کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے کہلوایا :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں محبوب بنا لے گا۔‘‘
آل عمران، 3 : 31
پھر کامل اظہارِ عبودیت و بندگی کا مرجع، موت و حیات، عبادات اور ہر قسم کی قربانی کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے واضح کیا کہ یہ سب کچھ اﷲ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا :
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہےo‘‘
الأنعام، 6 : 162
قرآن حکیم کے اس طرزِ بیان کے فلسفہ و حکمت کی درج ذیل توجیہات ہماری توجہ اور غور و فکر کی متقاضی ہیں :

(ا) اِیمان باﷲ سے پہلے اِیمان بالرسالت کی ناگزیریت

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن کلام الٰہی ہے جس کا ہر ہر لفظ زبان نبوت سے ادا ہوا لیکن اس کے باوجود توحید خداوندی، محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور دیگر متعدد عقائد و اعمال پر مبنی احکام کا اعلان لفظ ’’قُل‘‘ کے ذریعے کرایا گیا کہ ’’اے محبوب! آپ اپنی زبان سے فرمائیں‘‘ تاکہ لوگ آپ سے سن کر میرے خالق و مالک اور واحد و یکتا ہونے پر ایمان لے آئیں۔ میری ہستی اور اُلوہیت و وحدانیت کا صحیح ادراک صرف آپ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ تو پھر مناسب یہی ہے کہ میری وحدانیت کا اعلان بھی آپ ہی کریں تاکہ لوگ آپ کی زبانِ اَقدس سے سن کر میری توحید پر ایمان لائیں اور اس ایمان سے پہلے وہ آپ کی رسالت پر ایمان لائیں۔ پس اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے بغیر اﷲ کو ماننا چاہے تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مسلمان و مومن نہیں ہوسکتا۔ دائرۂ اِسلام میں داخل ہونے کے لیے ایمان بالرسالت کے واسطہ سے ایمان باﷲ ضروری ہے۔ ایسا دعوٰیء ایمان کہ جس میں فقط اُلوہیت ہی کا اقرار ہو اور نبوت و رسالت کا اِنکار تو یہ بذاتِ خود کفر ہے۔ لہٰذا لفظ ’’قُلْ‘‘ میں یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معرفتِ خداوندی کا واحد ذریعہ گردانتے ہوئے عرفانِ توحید کے لیے دہلیز نبوت پر اِطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی پیشانی خم کر دیں، کیوں کہ کسی اور واسطہ یا ذریعہ سے ذاتِ حق تک رسائی کا تصور بھی ناممکن ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
اِقبال، کلیات (اُردو)، اَرمغانِ حجاز : 691
(دین سارے کا سارا درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس دَر تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

(ب) لفظ ’’قُلْ‘‘ سے حکم کی اَہمیت اور فضیلت بڑھ جاتی ہے

کلامِ اِلٰہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسانیت تک پہنچا ہے۔ اِس میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کسی حکم کی اَہمیت اور فضیلت کے پیشِ نظر لوگوں کو اس کی طرف بہ طور خاص راغب اور متوجہ کرنا ضروری تھا۔ اِس کے لیے لفظ ’’قُلْ‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ علاوہ ازیں قرآن کے وہ مقامات جہاں قُلْ کہہ کر بات شروع کی گئی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ توسل کی ناگزیریت پر دال ہیں۔ اس نکتے سے یقیناً آیات قرآنی میں لفظ ’’قُلْ‘‘ کے استعمال میں کار فرما حکمتیں بھی سمجھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً محولہ بالا آیت۔ (قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ)۔ پر غور کریں تو اس میں بے شمار حکمتیں پنہاں نظر آتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ لفظ ’’قُلْ‘‘ کے بغیر حکم فرما سکتا تھا کہ ’’لوگو! اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے حصول پر خوشیاں مناؤ۔‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا بلکہ اسلوب بیان یہ ہے : ’’محبوب! یہ بات آپ اپنی زبان سے ان لوگوں سے فرما دیں۔‘‘
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ نعمت عطا کرنے والا تو اللہ رب العزت خود ہے اور خوشی منانے والے اس کے بندے ہیں۔ وہ اپنے بندوں کو یہ حکم خود بھی دے سکتا تھا، مگر اس نے ایساکیوں نہ فرمایا کہ ’’میرے بندو! میری اس نعمت پر خوشی مناؤ۔‘‘ جیسا کہ اس نے سابقہ امتوں سے براہ راست مخاطب ہو کر نعمت کو یاد کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ یہاں خوشی منانے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے کیوں دلوایا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ آیت خود دے رہی ہے کہ اے محبوب! آپ کی ذات ستودہ صفات ہی کائنات کی تمام نعمتوں کا سبب ہے اور چونکہ اس نعمت کا باعث ہی آپ ہیں اس لیے آپ ہی بتا دیں کہ لوگو! یہ نعمت جو میرے وجود، میری بعثت اور میری نبوت و رسالت کی صورت میں اﷲ نے تمہیں عطا فرمائی ہے، اس پر جتنی بھی خوشی مناؤ کم ہے۔