حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہیں
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں دو چیزوں یعنی اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں فضل اور رحمت کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا اور ان سے کیا مراد ہے؟قرآن حکیم کے اسالیبِ بیان میں سے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ جب فضل اور رحمت کا ذکر ہو رہا ہو تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہوتی ہے۔ اس کی مزید شہادت تو بعد میں بیان کی جائے گی، پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟
ایک لطیف علمی نکتہ
زیرنظر آیہ کریمہ میں دو چیزیں مذکور ہیں :1۔ اﷲ کا فضل
2۔ اﷲ کی رحمت
ان دونوں کے درمیان واؤ عاطفہ ہے۔ عام اصول کے مطابق چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح فضل اور رحمت کا ذکر جدا جدا ہوا، اُن دونوں کے لیے بیان کردہ حرفِ اشارہ۔ ذٰلِکَ (وہ) ۔ بھی اُسی طرح تثنیہ کا ہوتا۔ لیکن یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا گیا (یعنی یوں نہیں کہا گیا : ’’ان کی خاطر خوشیاں مناؤ، ‘‘ بلکہ فرمایا : ’’اس کی خاطر‘‘)۔ گرامر کی رُو سے یوں کہا جاتا ہے : ’’زید اور بکر کمرے میں آئے۔‘‘ نہ کہ اس طرح : ’’زید اور بکر کمرے میں آیا۔‘‘ آنے والے جب دو ہیں تو صیغہ بھی دو کا استعمال ہونا چاہیے۔ اسی طرح عربی زبان میں ذٰلک اِشارۂ واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جب تثنیہ یا جمع کا ذکر آئے تو اس کے لیے اشارہ بھی بالترتیب ذٰنک یا اُولٰئِک بولا جاتا ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھ کر اگر مذکورہ آیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد واحد اشارہ ذٰلِکَ لایا گیا ہے۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ کیا قرآن نے اپنے بیان میں قواعد کو بدل دیا ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تو ماننا پڑے گا کہ صیغۂ واحد اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اس مقام پر فضل اور رحمت سے مراد بھی کوئی ایک ہی وجود ہے۔ اس اُسلوبِ بیان سے اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ لوگ کہیں اﷲ کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش کرنے نہ لگ جائیں بلکہ اچھی طرح یہ نکتہ سمجھ لیں کہ اﷲ نے اپنا فضل اور رحمت درحقیقت ایک ہی ذات میں جمع کر دیئے ہیں۔ لہٰذا اس ایک ہی مبارک ہستی کے سبب سے شکر ادا کیا جائے اور خوشیاں منائی جائیں۔
تفسیرالقرآن بالقرآن
اگر ہم مذکورہ آیت کی تفسیر بالقرآن کرتے ہوئے بعض دیگر مقاماتِ قرآنی پر نظر ڈالیں تویہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ لفظ رحمت کی تفسیرسورۃ الانبیاء کی اُس آیت سے ہوتی ہے جس میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صفاتی لقب رحمۃ للعالمین بیان ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت
بنا کرo‘‘
الأنبياء، 21 : 107
قرآن حکیم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت قرار دیتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
2. فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ
لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘
البقره، 2 : 64
3. وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ
لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اور (اے مسلمانو!) اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند
ایک کے سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘
النساء، 4 : 83
یہ محض اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔ اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے :
4. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ
فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ
مُّبِينٍO
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت
والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو اُن پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور
انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں
تھےo‘‘
آل عمران، 3 : 164
دوسرے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ بالا صفات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :
5. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا
مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ
الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ
اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں
اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے
کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
الجمعة، 62 : 2
اس سے اگلی آیات میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیضِ رسالت میں شامل کر لیا، اور بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا :
6. وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ
الْعَزِيزُ الْحَكِيمُO
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ
ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
’’اور ان میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے)
جو ابھی اُن لوگوں سے نہیں ملے (جو اِس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں
آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی آمد اور اِن کا
فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل
والا ہےo‘‘
الجمعه، 62 : 3، 4
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کا ذکر کرنے کے بعد سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 3 میں ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ فرمایا۔ اِس سے مراد ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : میرے حبیب کی ولادت و بعثت اور بعد ازاں اس کی معرفت میرا فضل ہے، جس پر چاہوں کروں۔ تو جو کوئی میرے حبیب کی محبت سے سرشار ہے، اور جو تعظیم مصطفیٰ کرتا ہے اس پر میرا فضل ہوتا ہے۔ جس طرح میں نے دورِ نبوی کے لوگوں کو اپنی رحمت اور فضل سے نوازا اسی طرح تم پر بھی اپنے فضل و رحمت کی دولت نچھاور کرتا ہوں۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی مزید تشریح و توضیح سے پہلے ضروری ہے کہ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے مفاہیم خوب سمجھ لیں۔ ذیل میں ہم اِسی آیت کی تفسیر و تعبیر بیان کریں گے :
(ا) وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم کا معنی
اِس کا لفظی معنی ہے : ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا خالق ہے، تمام بزرگیوں اور عظمتوں کا مالک ہے، وہ اپنے فضل میں بھی عظیم ہے۔ تمام فضل پر اسی کا تصرف اور اسی کی حکمرانی ہے۔ یہ انتہائی معنی خیز بات ہے جسے سمجھنا ضروری ہے کہ وہ تمام فضل کا مالک کیسے ہے، وہ خود فضل کیوں نہیں ہے؟ اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی مکان کے حوالے سے پوچھا جائے کہ یہ مکان کس کا ہے تو کہنے والا کہے گا کہ یہ مکان فلاں صاحب کا ہے۔ اسی طرح جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا تم پر احسان ہے یعنی میں صاحبِ اِحسان ہوں۔ جب کہ زیادہ احسان کرنے والے کے لیے ذوالاحسان کا لفظ بولا جائے گا۔ اگر آپ عربی لغت کے قواعد دیکھیں تو واضح ہوگا کہ اس میں مضاف اور مضاف الیہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک شخص مضاف ہوتا ہے اور دوسرا مضاف اِلیہ ہوتا ہے، جیسے صاحب الکتاب، ذوالکتاب اور ذوالفضل میں مضاف اور مضاف الیہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ دونوں ایک ہی شخص ہوں۔ اس کی ایک مثال ’’رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ ہے جس میں ’’رسول‘‘ مضاف ہے اور لفظ ’’اللہ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ پس اس قاعدہ کی رُو سے رسول، اللہ نہیں ہو سکتا اور اللہ، رسول نہیں ہو سکتا۔اس نکتہ کی تفہیم کے بعد ہم دوبارہ قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے کہا گیا ہے : وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (اور اﷲ بڑے فضل والا ہے)۔ ’’ذُو الْفَضْلِ‘‘ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے مضاف اور مضاف اِلیہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ فَضل اور ذُو الْفَضْلِ بھی دو جدا جدا ہستیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُس فضل کا مالک ہے۔ وہ بذاتِ خود فضل نہیں، کیوں کہ فضل وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوگا کہ وہ خود فضل نہیں تو فضل کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جملہ انسانیت کے لیے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا اور جس کا نامِ نامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ذیل میں ہم اسی موقف کی تائید میں چند نام وَر تفاسیر کی عبارات نقل کریں گے تاکہ کوئی اِبہام باقی نہ رہے :
(ب) اَئمہ تفسیر کے نزدیک ’’فَضْلُ اﷲِ‘‘ سے مراد
سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے الفاظ ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ‘‘ اور ’’وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لیے وحی کیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر کسی نے فضل کو جیتی جاگتی صورت میں دیکھنا ہو تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں دیکھ لے۔ اس نکتے کی توضیح و تشریح خود قرآن مجید نے فرما دی ہے۔ ذیل میں ہم اس خاص آیت کریمہ کے حوالے سے چند اہم تفاسیر کا حوالہ ذکر کر رہے ہیں : 1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ) الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی مراد یوں بیان کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ) المن (الْعَظِيْمِ) بالإسلام والنبوة علي محمد صلي الله عليه
وآله وسلم ، و يقال : بالإسلام علی المؤمنين، ويقال : بالرسول والکتاب علی خلقه.
’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔ اور
یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور یہ بھی کہا
گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نزولِ قرآن کی صورت
میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘
فيروز آبادي، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس :
471
2۔ علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) نے بیان کرتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا وهو أن يکون نبي أبناء عصره، و نبي أبناء
العصور الغوابر، هو (فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ).
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو عطا فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے
لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔ یہی اللہ کا فضل
ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔‘‘
زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل فی وجوه التأويل، 4
:
530
3۔ علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي الله
عليه وآله وسلم.
’’وہ اُس اِحسانِ عظیم والا ہے جو اُس نے اپنی مخلوق پر بعثتِ محمدی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کیا۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 :
429
یعنی رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا جانا اﷲ تعالیٰ کا عظیم تر فضل
اور احسان ہے۔ 4۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ذریعے ہوا۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 :
260
یعنی رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری اور بعثت اﷲ کا بہت بڑا فضل
(الفضل العظیم) اور انعام ہے۔ 5۔ امام نسفی (م 710 ھ) فرماتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا. . . وهو أن يکون نبي أبناء عصره ونبي أبناء
العصور الغوابر.
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
عطا فرمایا۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا
قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔‘‘
نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 5 : 198
6۔ امام خازن (678۔ 741ھ) ’’الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أي علي خلقه حيث أرسل فيهم رسوله محمدا صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر فضل ہے جو اس نے اپنے رسول محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر فرمایا۔‘‘
خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 4 : 265
و (ذٰلِکَ) إشارة إلی بعثته عليه السلام.
’’ذٰلِکَ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی طرف اشارہ
ہے۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 8 :
265
8۔ امام ابن کثیر (701۔ 774ھ) تفسیر کرتے ہیں :
يعني ما أعطاء اﷲ محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم من النبوة العظيمة، وما خص به
أمته من بعثته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد وہ نبوتِ عظیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو عطا فرمائی، اور (اس سے مراد) وہ خصائص ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی بعثت کے ذریعے اُمت کو نوازا گیا۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 :
364
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود اور نبوت دونوں فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا
فضل ہے۔9۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
(ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ) النبي صلي الله عليه وآله وسلم ومن
ذکر معه.
’’(ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ) میں فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مذکور لوگ ہیں۔‘‘
سيوطي، تفسير الجلالين : 553
10۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
(ذٰلِکَ) إشارة إلي ما تقدم من کونه عليه الصلاة والسلام رسولا في الأميين ومن
بعدهم معلمًا مزکيا، وما فيه من معني البعد للتعظيم أي ذٰلِک الفضل العظيم.
’’ذٰلِکَ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سورت کی ابتداء میں جو ذکر کیا گیا ہے
کہ رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمیوں اور ان کے بعد آنے
والوں کے درمیان انہیں تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کے لیے معبوث فرمائے گئے
ہیں، اور اِشارۂ بعید۔ ذٰلِکَ۔ تعظیم کے لیے ہے یعنی بے شک وہ فضل عظیم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفيسر القرآن العظيم والسبع المثاني، 28 : 94،
95
11۔ شیخ احمد مصطفیٰ مراغی (1300۔ 1372ھ) مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أي وإرسال هذا الرسول إلي البشر مزکيا مطهرًا لهم، هاديا معلما، فضل من اﷲ، و إحسان
منه إلي عباده.
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت کی
طرف تزکیہ کرنے والا، پاک کرنے والا، ہدایت دینے والا اور علم دینے والا بنا کر
بھیجنا اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و اِحسان ہے۔‘‘
احمد مصطفي، تفسير القرآن الکريم، 10!28 :
96
12۔ عصر حاضر کے ایک نام وَر مصری مفسر شیخ طنطاوی جوہری (م 1359 ھ) لکھتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) فإذا کان محمد قد أرسلته إليکم أيها الأميون
وإلي من يأتي بعدکم.
’’اور اﷲ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ میرا یہ فضل تم پر اُس وقت ہوا جب میں نے اے
اُمّیو (اَن پڑھ لوگو)! اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہاری طرف
اور تمہارے بعد آنے والوں کی طرف بھیجا۔‘‘
طنطاوي جوهري، الجواهر في تفسير القرآن الکريم، 24 :
175
آیت کریمہ کی متذکرہ بالا تفاسیر سے واضح ہوگیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم بلااِستثناء
سب کے لیے فضل ہیں۔ لہٰذا جب نصِ قطعی سے یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور
اس کی رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو یہ اَمر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ اس رحمت
اور فضل کے حصول پر
’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے حکم کے تحت عید میلاد النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی
منانا بھی عین مدعائے قرآن اور منشائے حکمِ اِلٰہی ہے۔اَئمہ تفسیر کے نزدیک فضل و رحمت کا مفہوم
گزشتہ صفحات میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر بالقرآن کے تحت سورۃ الجمعۃ کی آیات کی تفسیر و توضیح کے بعد اب ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :1۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کا قول نقل کرتے ہیں :
إن فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن
عباس.
’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک
’’فضل اﷲ‘‘
سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 4 :
40
2۔ ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ) ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما
کی روایت نقل کرتے ہیں :
وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه : الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه
وآله وسلم.
’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم
(یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 5 :
171
3۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مذکورہ
بالا قول نقل کیا ہے :
وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما في الآية، قال : فضل اﷲ : العلم، ورحمته
:
محمد صلي الله عليه وآله وسلم. قال اﷲ تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِيْنَ)(1) - (2)
’’ابو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا
ہے کہ فضل اﷲ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم
نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘
(1) الأنبياء، 21 :
107
(2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330
4۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) بیان کرتے ہیں : (2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330
و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله
عليه وآله وسلم، وأخرج الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة
والسلام.
’’ابو شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے
مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ خطیب اور ابن
عساکر نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 :
141
مذکورہ تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فضل سے مراد
العلم لیتے ہیں اور العلم سے مراد قرآن حکیم ہے جس کی تائید درج ذیل آیت سے ہوتی ہے
:وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر
اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo‘‘
النساء، 4 :
113
اگر فضل سے مراد علم یا قرآن حکیم لیں تو پھر بھی اس کا ضمنی مفہوم حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کے واسطے سے ہمیں قرآن مجید ملا۔
امام المفسرین جلیل القدر صحابی حضرت عبد
اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا یہ قول۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ذات گرامی اﷲ کا فضل اور
سر تا پا اس کی رحمت ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکورہ اَلفاظ۔
فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ کے مفہوم کو جشنِ میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے اُجاگر کرتا
ہے۔ جشنِ میلاد کو عید مسرت کی حیثیت سے منانے کو اﷲ کے فضل و رحمت پر خوشی و مسرت
کے اظہار کا ذریعہ گردانا گیا ہے اور اس کا ذکر اس قرینے اور شدّ و مد سے کیا گیا
ہے کہ کوئی صاحبِ فکر مسلمان اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا عباراتِ
تفاسیر نے فضل و رحمت کے معانی اس طرح کھول کر بیان کر دیے ہیں کہ اس کے اَسرار و
رموز بالکل عیاں ہوگئے ہیں، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے
فضل و رحمت پر مسرتوں اور شادمانیوں کی صورت میں جشنِ عید منانا منشائے خداوندی ہے۔ علامہ طبرسی (م 548 ھ) نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
ومعني الآية قل لهؤلاء الفرحين بالدنيا المعتدين بها الجامعين لها إذا فرحتم بشيء
فافرحوا بفضل اﷲ عليکم ورحمته لکم بإنزال هذا القرآن وارسال محمد إليکم فإنکم
تحصلون بهما نعيمًا دائمًا مقيمًا هو خير لکم من هذه الدنيا الفانية. . . . عن
قتادة ومجاهد وغيرهما قال أبو جعفر الباقر عليه السلام :
(فَضْلُ اﷲِ) رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس آیت کا معنی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
ارشاد فرما رہا ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں جو دنیا کی خوشیوں میں مگن اور اس کے
ذریعے (دوسروں پر) ظلم و زیادتی کرنے والے اور ہر وقت اس کو جمع کرنے والے ہیں کہ
اگر تم کوئی خوشی منانا ہی چاہتے ہو تو اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر جشنِ مسرت مناؤ
جو نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں تمہیں
عطا ہوئے ہیں۔ پس بے شک تم ان دونوں (نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانے) کے بدلے میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمت (جنت) حاصل
کروگے جو تمہارے لیے اِس فانی دنیا سے بہت بہتر ہے۔ ۔ ۔ ۔ حضرت قتادہ اور مجاہد کے
علاوہ دوسرے علماء سے بھی روایت ہے کہ امام ابو جعفر محمد الباقر علیہ السلام نے
فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان في تفسير القرآن، 5 : 177،
178
تفاسیر میں بیان کیے گئے تمام معانی، ان کے رموز اور ضمنی تشریحات و
تعبیرات سے یہی
مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ اﷲ بزرگ و برتر نے جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب
سے بڑی
نعمت جو اُس کے فضل اور رحمت کی صورت میں نازل ہوئی وہ قرآن اور محمد
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے
کہ جشنِ
مسرت و شادمانی منانے کے قابل صرف دو چیزیں ہیں : ایک قرآن کا نزول اور
دوسرا ولادتِ
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پر فرمان اِلٰہی۔
فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حجت ہے۔ اگر
کوئی خوشی منانی ہے تو اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا
میں تشریف آوری کے دن سے زیادہ اور کوئی دن اس کا حق دار و سزاوار نہیں۔مولانا اَشرف علی تھانوی کا نقطہ نظر
یہاں ضمنًا دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ) کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کر لینا زیر نظر موضوع کی وضاحت کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا موصوف نے بجا طور پر اپنی تقاریر سے مرتب شدہ کتاب ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ بلااِختلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور اس کا کامل ترین فضل ہیں۔ اس لیے اس آیہ کریمہ سے بدلالۃ النص یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یہاں رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی ولادت پر اﷲ تعالیٰ خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں۔ پھر اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ جو نعمت تمام دنیوی اور دینی نعمتوں کی اصل اور ان کا سر چشمہ ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہے۔ (1)(1) مولانا اشرف علی تھانوی متذکرہ بالا آیات قرآنی میں فضل اور رحمت کی اصل مراد قرآن کو قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ
لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘
البقره، 2 :
64
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم
(سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘
النساء، 4 :
83
’’اور یہاں بھی بقول اکثر مفسرین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی مراد ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی مزید لکھتے ہیں :
’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے
لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ
بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم
مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں
یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور کا
وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر
اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو
حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر
خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے
علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور کی
ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم
ہے۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطبات ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 63 - 65
اگرکسی نے فضل اور رحمت الٰہی کو صورۃً اور تمثیلاً دیکھنا ہو تو وہ حضور نبی
مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لے جن کو اللہ نے اپنا سراپائے فضل اور رحمت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ
رحمت اور فضل ایک ہی ذات، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مرتکز ہوگئے ہیں جو بلاامتیازِ زمان و
مکان سب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فَلْیَفْرَحُوْا کاحکم
سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورودِ مسعود پر جشنِ مسرت و شادمانی منانا
چاہئے اور اس موقع پر شرعی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہوئے جس قدر بھی خوشی کی
جائے جائز ہوگی۔