نعمتوں کا شکر بجا لانا کیوں ضروری ہے؟
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے بندگی ہے مگر قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کی ایک اور حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌO
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم
ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘
ابراهيم، 14 :
7
نعمتوں پر شکر بجا لانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے، یعنی اﷲ
تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے لیکن کفرانِ نعمت اتنا
ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس لیے
دیگر اِنعاماتِ اِلٰہی کا مستحق قرار پانے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت
کی صورت میں میسر آنے والی نعمتِ عظمیٰ پر شکر بجالانا ضروری ہے۔شکرانۂ نعمت کے معروف طریقے
اِس باب کے آخر میں ہم بالاختصار نعمتوں پر شکر بجا لانے کی مختلف صورتیں بیان کریں گے جن کی سند بھی قرآن حکیم نے ہی فراہم کی ہے۔ نعمتِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکرانہ ادا کرتے وقت بھی یہی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں :(1) ذکرِ نعمت
قرآن حکیم نے نعمتوں کا شکر بجالانے کی ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نعمت کو یاد رکھا جائے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے :يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔‘‘
البقره، 2 :
47
یہی مضمون سورۃ آل عمران کی اس آیت میں بھی ضمناً آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی
نوع انسان کو حکم دیا کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو
اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی
بھائی ہو گئے۔‘‘
آل عمران، 3 :
103
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا
بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت
جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے
گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے
بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت)
ہےo‘‘
الضحیٰ، 93 :
4
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر
جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
الإنشراح، 94 :
4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا
تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک
کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے
اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت
جمع کر رہا ہے۔ اِمام اَحمد رضا خان (1272۔ 1340ھ) نے کیا خوب کہا ہے :
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ھے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 18
(2) عبادت و بندگی
اﷲ کی نعمتوں کا شکر اُس کی عبادت و بندگی کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادات کے علاوہ دیگر نفلی عبادات سب اﷲ کی نعمتوں پر شکرانے کی بہترین صورتیں ہیں۔علاوہ ازیں صدقات و خیرات دے کر غریب، بے سہارا اور یتیم لوگوں کی پرورش و نگہداشت کر کے بھی اﷲ تعالیٰ کی دی گئی نعمت پر شکر بجا لانا اَمرِ مستحب ہے۔
(3) تحدیثِ نعمت
نعمت کا شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت پر اُس کا خوب اِظہار کرے۔ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کرے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا ہے :
وَ اَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْo
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘
الضحیٰ، 93 :
11
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ آیاتِ قرآنی میں ذکرِ نعمت کا حکم ہے جس سے مراد ہے کہ
نعمت کو دل سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا چرچا کیا جائے لیکن وہ ذکر لوگوں کے
لیے نہیں بلکہ اﷲ کے لیے ہو۔ مذکورہ بالا آیت میں تحدیثِ نعمت یعنی کھلے بندوں اس
نعمت کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کے سامنے نعمت
کا خوب چرچا کیا جائے۔ چنانچہ ذکر اور تحدیثِ نعمت میں بنیادی فرق یہ ہوا کہ ذکر
اللہ کے لیے ہوتا ہے جب کہ تحدیث کا تعلق زیادہ تر مخلوق کے ساتھ ہے یعنی لوگوں میں
چرچا کرنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور
(میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘‘
البقره، 2 :
152
یہاں ذکر سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہے، لیکن تحدیثِ نعمت سے مراد ہے کہ خالی ذکر ہی
پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت کا ایسا اظہار کیا جائے کہ اسے خلقِ خدا بھی
سنے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان کیا جائے جو کہ منشائے الٰہی ہے۔تحدیثِ نعمت کے بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نعمتِ خداوندی کے نزول کا علم زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا تک پہنچے اور لوگ کثرت کے ساتھ اس ادائے شکر میں شریک ہوں۔ لہٰذا اب ذکر اور تحدیث میں دوسرا بڑا اور واضح فرق یہ ہوا کہ ذکر تنہا شکر بجا لا کر بھی ہوسکتا ہے مگر تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ اسے بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات میں خلقِ خدا تک پہنچایا جائے۔ اس کے شکرانے کے لیے اس کی نعمت کے شایانِ شان عظیم محافل و مجالس اور اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ان محافل میں اس نعمتِ کبریٰ کا تذکرہ کیا جائے۔
’’تحدیثِ نعمت‘‘ کیسے کی جائے؟
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب اُمتِ مسلمہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت جیسی عظیم ترین نعمت کے صلہ میں تحدیثِ نعمت کے فریضہ سے عہدہ برآ ہوگی تو تذکارِ نعمت میں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھی جائے گی، کبھی صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے گا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کا ذکر ہوگا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بات ہو گی اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت کا ذکر چھیڑا جائے گا۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن صورت اور دل رُبا اداؤں کا تذکرہ کرے گا اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری پیاری اور کریمانہ عادات مبارکہ بیان کرے گا۔ یہ سب چیزیں وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کی تفسیر میں ہیں اور اس نعمت کبریٰ کی یاد کی مختلف صورتیں ہیں جو ذکرِ نعمت کے ذیل میں آتی ہیں۔ اگر تھوڑا سا بھی غور کر لیا جائے تو تمام محافلِ میلاد کی عام صورت حال یہی ہوتی ہے اور ان ہی چیزوں کے بیان کو ان محافل میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میلاد میں ان کا ذکر کس طرح کیا جائے، اس کی حدود و قیود کیا ہونی چاہئیں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں ان کی مدح سرائی کس طرح کریں؟ تو ان تمام التباسات کے جواب میں نعت گویانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِمام، قافلہ عشق کے سرخیل امام شرف الدین بوصیری (608۔ 696ھ) نے چند اشعار میں بڑے صاف اور واضح انداز میں اس سلسلے میں پیش آمدہ ذہنی اشکالات کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
1. دع ما ادعَتْه النصاري في نبيّهم
واحکم بما شئت مدحًا فيه واحتکم
2. فانسب إلي ذاته ما شئت من شرف
وانسب إلي قدره ما شئت من عِظم
3. فإن فضل رسول اﷲ ليس له
حدٌّ فيعرب عنه ناطقٌ بفم
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ یہاں ایک احتیاط کا ذکر کر رہے ہیں کہواحکم بما شئت مدحًا فيه واحتکم
2. فانسب إلي ذاته ما شئت من شرف
وانسب إلي قدره ما شئت من عِظم
3. فإن فضل رسول اﷲ ليس له
حدٌّ فيعرب عنه ناطقٌ بفم
1۔ ’’نصاریٰ (عیسائیوں) نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ دعویٰ الوہیت کیا ہے (اور انہیں خدا کا بیٹا وغیرہ بنا کر غلو اور کفر کا ارتکاب کیا ہے) وہ چھوڑ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ایسے خطرناک غلو اور زیادتی سے بچتے ہوئے جو کچھ تمہار ا جی چاہے کہو اور پورے یقین اور اذعان کے ساتھ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب مدح سرائی کیا کرو۔
2۔ ’’پس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگی اور بڑائی کا اظہار کرو اور جن جن عظمتوں کو چاہو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے بلند مرتبہ سے منسوب کرو۔
3۔ ’’کیوں کہ بے شک سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و شرف اور بزرگیء مرتبہ کی کوئی حد و نہایت ہی نہیں کہ کوئی مدح کرنے والا اسے بیان کر سکے۔‘‘
بنا بریں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں اُن کی تعریف و نعت ہر طرح سے جائز و مستحسن ہے۔ تاہم مقامِ اُلوہیت اورمقامِ نبوت میں حفظِ مراتب کا خیال رکھنا بہرحال فرض اور شرطِ ایمان ہے۔
(4) جشنِ عید
ذکرِ نعمت اور تحدیثِ نعمت کے علاوہ اﷲ کی نعمتوں اور اس کی عنایات کریمانہ پر شکر کے اظہار کا ایک طریقہ اور صورت یہ بھی ہے کہ اس خوشی و مسرت کا اِظہار جشن اور عید کے طور پر کیا جائے۔ پہلی امتوں کا بھی ادائے شکر کے حوالے سے یہی وطیرہ تھا، جس کا ذکر گزشتہ اَوراق میں ہو چکا ہے۔ اور یہ سنتِ انبیاء ہے کہ جس دن اﷲ کی کوئی خاص نعمت میسر آئے اس دن کو بطور عید منایا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے
اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے
لیے (بھی)۔‘‘
المائده، 5 :
114
یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت کے حصول پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید
منانے کا ذکر کرتے ہیں چنانچہ اسی کے پیش نظر عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت
کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔ نزولِ مائدہ کی نعمت کو ہمارے آقا و مولا حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے ؟ کہاں وہ ایک عارضی خوانِ نعمت اور کہاں وہ دائمی اور ابدالاباد بلکہ دونوں جہانوں میں جاری رہنے والی نعمت جو حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں نوعِ انسانی کو نصیب ہوئی! ان دونوں کا آپس میں تقابل و موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس ابدی و دائمی نعمت پر کماحقہ اظہار تشکر کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہاں نزولِ مائدہ اور ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقابل قطعاً مقصود نہیں، سردست ایک تاریخی حقیقت پر مبنی اہم اور توجہ طلب پہلو کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی اُس وقت سے لے کر آج تک اتوار کے روز یہ خوشی مناتے چلے آئے ہیں کیوں کہ اتوار کے دن ہی ان پر مائدہ کی نعمت اتری تھی۔ سابقہ امتیں تو مائدہ جیسی نعمت کے شکرانے پر عیدیں مناتی رہی ہیں جس کا ذکر قران نے بھی محفوظ رکھا ہے کیوں کہ یہ بھی رضائے الٰہی کے حصول کی ایک صورت ہے اور سنت انبیاء ہے۔ تو جب عمومی نعمتوں کے حصول اور ان کے نزول پر عید منانا انبیاء علیہم السلام کی سنت اور اﷲ کے حکم کی پیروی قرار پائی تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر۔ کہ جس کے توسط سے کائنات ہست و بود کو ساری نعمتیں عطا ہوئی ہیں۔ یہ امت عید اور جشن کیوں نہ منائے۔